کوئی امید بر نہیں آتی
مرزا غالب
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاؤ گ
غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے مرزا غالب ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے آرٹس لقی😕
بہت خوب
جواب دیںحذف کریںشکریہ جناب
حذف کریں